Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔

قابل رحم شوہر‘ سنگدل بہو اور ظالم ساس

ماہنامہ عبقری - جولائی 2024ء

ساس کو چاہیےکہ بہو کو ملازمہ نہ سمجھے‘
بہو کو چاہیے کہ ساس کو ماں کا درجہ دے

ہمارے معاشرے میںمشترکہ خاندانی نظام ابھی تک چل رہا ہے۔ اس نظام کی خوبی یہ ہے کہ سب مل کر رہتے ہیں۔ ساس اور بہو کو بھی ایک چھت کے نیچے گزارہ کرنا پڑتا ہے۔ اگر مرد شام کو گھر آئے ، تھکا ماندہ ہو اور آرام و سکون چاہتا ہو اور ایسے میں گھر کی عور تیں لڑتی جھگڑتی ملیں تو اس کے جذبات پلک جھپکتے میں مایوس کن ہو جاتے ہیں۔ وہ یہ سمجھ نہیں پاتا کہ کس کا ساتھ دے اور کس کا ساتھ نہ دے ۔
شوہر کی قابل رحم حالت
ماں کی حمایت کرتا ہے تو بیوی اکھڑتی ہے۔ بیوی کی طرفداری کرتا ہے تو ماں ناراض ہو جاتی ہے ۔ایسے میں وہ بے چارہ چکی کے دو پائوں کےدر میان پِس کر رہ جاتا ہے۔ایسی صورت حال میں مرد کی حالت قابل رحم ہوتی ہے۔ وہ اپنے تمام معاملات میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔ بعض اوقات تو اس کامستقبل داؤ پر لگ جاتا ہے۔اس صورت حال کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اب گھر میں ناچاقی کے واقعات میں بے حد اضافہ ہو جاتا ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس صورت حال کے لیےکس کو مورد الزام ٹھرایا جائے‘کسی ایک کو یا سب کو بیک وقت مورد الزام نہیں ٹھرایا جا سکتا۔ جس گھر میں چار بر تن ہوں‘ ان کا آپس میں کھنکنا ، ٹکرانا فطری امر ہے۔
مایوس ہونا اور ہمت ہاردینا مسئلہ کا حل نہیں
اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ انسان حالات سے بالکل مایوس ہو جائے ، ہمت ہار دے۔‘یہ مسئلے کا حل ہر گز نہیں۔یہ پورا معاملہ رواداری اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کا متقاضی ہے۔ اگر سب اپنی انا اور ہٹ دھرمی پر قائم رہیں تو معاملات میں الجھنوں کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔اس ضمن میں ساس اوربہو دونوں پر حالات کو بہتر کرنے کی ذمہ داری یکساں طور پر عائد ہوتی ہے۔ ساس اس بات پر غور کرے کہ دس پندرہ برس پہلے وہ خود بھی اسی حالات کی گرفت میں تھی جن کی گرفت میں اب اس کی بہو ہے۔ ایسے میں اگر وہ اپنی بہو پر بے جا دباؤڈالنے سے گریز کرے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ معاملات میں درستگی کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ اگر بہو کو احساس دلایا جائے کہ گھر میں اس کی ضرورت ہے اور وہ کام میں آسانی پیدا کرتی ہے تو لا محالہ اس کے اعتماد میں اضافہ ہو گا اور وہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ پر سکون ہو کر گھر کا کام کرے گی۔
یہ اقدام گھر کو خوشیوں کا گہوارہ بنادے
ساس کا فرض ہے کہ وہ بہو کو ان پریشانیوں سے دو چار ہونے سے بچالے جن سے وہ خود دو چار رہی ہے۔ اس کا یہ قدم گھر کو سکون کی منزل کی طرف لے جائے گا اور بہو کے دل میں اس کے لیے احترام میں اضافہ ہو گا۔ اسی طرح اگر بہو بیمار ہو تو اس کا خیال رکھنا ساس کا فرض ہے۔ ایک خاص بات یہ ہے کہ بہونے زندگی کے ابتدائی برس اپنے گھر میں گزارے ہوئے ہوتے ہیں یعنی ایسے ماحول میں جو اس کے سسرال کے ماحول سے قدرے مختلف ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ نئے ماحول میں ڈھلنے میں کچھ وقت تو لگتا ہی ہے۔ اگر ایسے میں اس سے توقع کی جائے کہ نئے گھر میں وہ راتوں رات یہ کام کرلے گی تو معاملات کا بگڑنا ناگزیر ہے۔ نکتہ یہ ہے کہ اگر بہو کے رہن سہن کا انداز ، ڈریسنگ کا اسٹائل، گفتگو کا ڈھنگ ساس کو پسند نہیں تو کوئی بات نہیں۔رفتہ رفتہ اس صورت حال میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ ساس بہو کے معاملے یا معاملات میں کسی تیسرے فریق کو مداخلت سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ تیسرا فریق ہی بات کو بگاڑتا ہے۔
بے جاں توقعات سے گریز کریں
دوسری طرف بہو کا بھی فرض ہے کہ وہ چند باتوں کا خاص طور پر خیال رکھے۔ وہ ایک نئے گھر میں ہے۔ یہاں کا ماحول اس کے لیے بہت اجنبی ہے۔ اس اجنبیماحول میں چونکہ زندگی گزرے گی ۔اب اسے سمجھ لینا چاہیے کہ خود کو اس  میں ڈھال لینے کی کوشش کرنا اس کے لیے ناگزیر ہے۔ اگر وہ چھوٹی موٹی بنی رہے گی تو بات بنے گی نہیں۔ گھر میں سب اسے اجنبی گردانتے رہیں گے اور یوں اس کے لیے معاملات جوں کے توں رہیں گے، ان میں بہتری کے آثار پیدا نہیں ہوں گے۔بہو کو اپنی ساس سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ ساس کی اپنی شخصیت ہوتی ہے ، اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ہر معاملے میں ان سے مدد کی توقع رکھناضروری نہیں ہوتا۔ نئے ماحول میں خود کو ڈھالنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ تبدیلی چھوٹی ہو یا بڑی ، رفتہ رفتہ بہو اگر اپنی ازدواجی زندگی میں خوشیاں بکھیرنے کی خواہش مند ہے تو اس کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ ہر طرح کے حالات میں خود پر قابو پائے‘ پر سکون رہےرواداری سے کام لے۔ انتظار کرے کہ حالات میں مثبت تبدیلی کب رونما ہوتی ہے۔ اس صورت میں اس کے لیے گنجائش پیدا ہو گی کہ خود کو بہتر طور پر نئے ماحول کے سانچے میں ڈال سکے۔ یہ سب راتوں رات نہیں ہو جاتا۔ سب کے مزاجوں کو سمجھنا پڑتا ہے۔ سب کے ساتھ اچھا سلوک روا رکھنا پڑتا ہے۔ لوگوں کو بہو سے یعنی نئی دلہن سے چند ایک شکایات بھی ہو سکتی ہیں۔ اس صورت حال سے گھبرانے کی ضرورت نہیں‘یہ سب ہوتا ہے۔ ازدواجی زندگی کی مشکلات کے ساتھ ساتھ سسرال کے ماحول کی مشکلات بھی ہوتی ہیں۔ حالات سے لڑنا سیکھیے ، ڈٹ کر ان کا سامنا کیجیے کہ یہی زندگی ہے‘ اسی کا نام دنیا ہے۔ ساس اور بہو کو یاد رکھنا چاہیے کہ گھر کے معاملات خوش اسلوبی سے چلانے میں دونوں کا کردار بہت اہم ہے۔ کسی کی اہمیت کو گھٹایا نہیں جاسکتا۔

Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 148 reviews.